پاکستان میں تمباکونوشی کے خلاف دو دہائیوں پر محیط کوششوں کے باوجود تمباکو کے استعمال سے ایک لاکھ افراد میں سالانہ اموات کی شرح 91.1 فی فیصد رپورٹ ہوئی ہے جو جنوبی ایشیا (78.1) اور باقی دنیا (72.6) کی اوسط شرح سے کافی زیادہ ہے۔ یہ ایک ایسے ملک کے لیے تشویش ناک بات ہے جسے عالمی ادارہ صحت نے تمباکونوشی کے خاتمے کے اقدامات پر ایوارڈ سے نوازا ہے۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ پاکستان میں ٹوبیکو کنٹرول کی مہم کو کوئی کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ پاکستان نے سن 1997 میں میڈیا، خصوصی طور پر پاکستان ٹیلی ویژن پر تمباکو کی مصنوعات کے اشتہارات پر پابندی لگانے کے سلسلے میں پہلا قدم اٹھایا۔ یہ قدم پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں ہر جگہ سگریٹ نوشی کے اشتہارات ختم کرنے کے لیے اٹھایا گیا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمیں ملک میں کہیں بھی سگریٹ کے اشتہار نظر نہیں آتے۔
پاکستان نے سن 2004 میں عالمی ادارہ صحت کے فریم ورک کنونشن آن ٹوبیکو کنٹرول (ایف سی ٹی سی) کی توثیق کے بعد تمباکونوشوں کی سگریٹ تک رسائی روکنے پر توجہ دی مگر وہ اس میں بری طرح ناکام رہا۔ اس کے بعد پاکستان نے سن 2009 میں سگریٹ کی ڈبیوں پر تصویری انتباہی پیغامات کا اجرا کیا جو وقتاً فوقتاً اپ ڈیٹ ہوتے رہتے ہیں۔ یہ پیغامات فی الوقت سگریٹ کی ڈبیوں کے اگلے اور پچھلے حصے کے 60 فیصد پر شائع ہوتے ہیں مگر ہدف 80 فیصد حصے کا احاطہ کرنا ہے۔
اسی طرح حکومت نے تمباکو کے استعمال کی حوصلہ شکنی کے لیے سگریٹ اور تمباکو کی دیگر مصنوعات پر ٹیکس بڑھا دیا ہے۔ پاکستان نے مالی سال 2022- 23 کے دوران سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) میں خاطر خواہ اضافہ کیا مگر سگریٹ کے مہنگے اور قدرے سستے برانڈز کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے سگریٹ نوش ان سے بھی سستے برانڈز پر منتقل ہوئے اور کھلے سگریٹ خریدنا شروع کر دیے۔ حالاں کہ کھلے سگریٹ کی فروخت پر بابندی ہے۔ تعلیمی اداروں کے 50 میٹر کے دائرے میں تمباکو کی مصنوعات کی فروخت پر بھی پابندی ہے مگر اس پر عمل درآمد ایک مسئلہ ہے۔
پاکستان نے تمباکونوشی کے خاتمے کی کوششوں میں ایک اہم پہلو کو مکمل طور پر نظر انداز کیا ہے اور وہ سگریٹ نوشی ترک کرنے کے لیے خدمات وسہولیات کی فراہمی ہے۔ پاکستان میں سگریٹ نوشی ترک کرنے کے لیے جامع اور حکومتی سطح پر قومی پروگرام کا فقدان ہے۔ گو کہ کچھ غیر سرکاری ادارے اور تنظیمیں چھوٹے پیمانے پر اقدامات اٹھاتی ہیں مگر ان کی محدود رسائی اور وسائل سے قومی سطح پر اس مسئلے کاحل ممکن نہیں ہے۔
بیشتر تمباکونوش سگریٹ نوشی ترک کرنے کی خدمات و سہولیات کی دستیابی یا اہمیت سے ناواقف ہیں۔ اس کے علاوہ عوام میں آگہی پیدا کرنے کے پروگراموں میں شاذ و نادر ہی ایسی خدمات و سہولیات سے استفادہ کرنے پر زور دیا جاتا ہے، ان پروگراموں میں تمباکو کے استعمال کے نقصانات پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ اس سے تمباکونوشی ترک کرنے میں مؤثر خدمات و سہولیات کی طلب محدود ہوجاتی ہے
جس کی وجہ سے تمباکو نوشوں کو سگریٹ نوشی چھوڑنے کی ترغیب ملتی ہے اور نہ ان کے پاس یہ معلومات ہوتی ہیں کہ وہ اپنی اس عادت سے کیسے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔
پاکستان میں تمباکونوشی ترک کرنے کے تربیت یافتہ اور پیشہ ور ماہرین صحت کی بھی کمی ہے۔ ڈاکٹروں، نرسوں، اور صلاح کاروں میں اکثر تمباکونوشی ترک کرنے کے سلسلے میں شواہد پر مبنی مشورے دینے، رویے میں تبدیلی کی تھراپی، یا تمباکو کی مصنوعات کے مضر صحت اثرات سے بچنے کے طریقے بتانے کے لیے ضروری تربیت کی کمی ہوتی ہے۔
تمباکو نوشی چھوڑنے کی خدمات و سہولیات بنیادی صحت کی دیکھ بھال کے نظام کا حصہ نہیں ہیں۔ مراکز صحت اور ہسپتالوں میں معمول کے چیک اپ کے دوران سگریٹ نوشی ترک کرنے کے طریقوں یا اس سلسلے میں خصوصی سروسز کے حوالے سے شاذ و نادر ہی بات کی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے تمباکونوشوں کو سگریٹ نوشی چھوڑنے کی کوششوں میں شامل کرنے کے اہم مواقع ضائع ہو جاتے ہیں۔
سگریٹ نوشی تر ک کرنے اور اس سے ہونے والے نقصانات میں کمی لانے کی مددگار مصنوعات میں نکوٹین ریپلیسمنٹ تھراپی (این آر ٹی) اور ڈاکٹروں کے نسخے پر ملنے والی ادویات شامل ہیں، مگر پاکستان میں یہ سستے داموں اور بڑے پیمانے پر دستیاب نہیں ہیں۔ ان کی زیادہ قیمت انہیں بیشتر تمباکونوشوں،خصوصی طور پر کم آمدنی والے افراد کے لیے ناقابل رسائی بناتی ہیں۔
پاکستان میں ثقافتی اور سماجی عوامل بھی سگریٹ نوشی چھوڑنے کی خدمات و سہولیات کے حصول میں رکاوٹ ہیں۔ بیشتر تمباکو نوش، سگریٹ نوشی کو ذاتی پسند کے طور پر دیکھتے ہیں اور مدد لینے سے گریزاں رہتے ہیں، جبکہ معاشرے میں منفی سوچ بھی لوگوں کو اس سلسلے میں مدد حاصل کرنے سے باز رکھتی ہے۔
پاکستان میں سگریٹ نوشی سے پاک مستقبل کا حصول ممکن ہے۔ اس کے لیے ملکی سطح پر سگریٹ نوشی کے خاتمے کی حکمت عملی بنانے اور اس پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت تمام صوبوں اور اضلاع کے سرکاری ہسپتالوں میں سگریٹ نوشی کے خاتمے کے مراکز قائم کرنے، سگریٹ نوشی ترک کرنے کے طریقوں اور کونسلنگ کے حوالے سے ماہرین صحت کو تربیت دینے؛ اور این آر ٹی سمیت تمباکونوشی چھوڑنے کی ادویات کی سستے داموں یا مفت فراہمی کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ معمول کے چیک اپ میں سگریٹ نوشی ترک کرنے کے بارے میں مشاورت کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔
پاکستان میں تمباکو نوشی کے خاتمے کی مناسب خدمات و سہولیات کا فقدان اس مسئلے پر قابو پانے کی کوششوں کی ایک کمزور کڑی ہے۔ اہداف کے لحاظ سے سائنسی بنیادوں پر مداخلتوں اور وسائل کی تقسیم سے اس مسئلے کو حل کرنے اور تمباکو نوشی سے ہونے والی بیماریوں اور اموات میں نمایاں طور پر کمی لانے میں مدد ملے گی۔ نتیجتاً صحت عامہ کے بھی بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔
ترک سگریٹ نوشی کی مخالفت کیوں؟، ارشد رضوی
پاکستان سن 2002 میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ( ڈبلیو ایچ او ) کے فریم ورک کنوینشن آن ٹوبیکو کنٹرول (FCTC) کا رکن بنا تھا، تب سے اب ( 2023 ) تک اکیس سال گزر چکے ہیں پاکستان (اور دنیا بھر) میں سگریٹ نوشوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ ایک رائے کے مطابق دو کروڑ نوے لاکھ ( 29,000,000 ) جبکہ بعض رپورٹس تین کروڑ دس لاکھ ( 31,000,000 ) سگریٹ نوشوں کی موجودگی کی بات کرتی ہیں، اگر پچیس کروڑ کی آبادی مان لی جائے تو پاکستان میں 12 فیصد آبادی تمباکو استعمال کرتی ہے۔
ترک سگریٹ نوشی میں مدد گار متبادل، ارشد رضوی
سگریٹ یا تمباکو نوشی کے نقصان دہ اثرات کے بارے میں ستر سال قبل ہونے والی ایک سٹڈ ی میں بتایا گیا تھاتب سے اب تک دنیا میں کروڑوں لوگ تمباکو سے متعلق بیماریوں کے باعث موت کی تاریک وادی میں جا چکے ہیں
صحت، تمباکو اور ریونیو، ارشد رضوی
تمباکو نوشی کا انسان سے رشتہ بہت پرانا ہے۔ تمباکو اور اس سے متعلق مصنوعات کی طویل تاریخ ہے جو 6000سال قبل مسیح میں ملتی ہے۔مقامی امریکیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے پہلے تمباکو کی کاشت شروع کی اور یہ 6000سال قبل مسیح میں ہی ہوا۔
انسانی صحت اور عالمی ادارہ صحت، ارشد رضوی
اگر عالمی ادارہ صحت کچھ مختلف طرزِ عمل اختیار نہیں کرتا اور تمباکو پالیسی میں جدّت کو قبول نہیں کرتاتو ادارہ دل، کینسر اور پھیپھڑوں کے امراض میں کمی کے اہداف کے حصول میں بہت پیچھے رہ جائے گا۔
جو فرد سگریٹ نوشی ترک کرنا چاہتا ہے اس کی نیکوٹین کی طلب اور نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے کونسلنگ کی ضرورت ہے، ڈاکٹر احسن لطیف
اگر ہم چاہتے ہیں کہ سگریٹ نوشی ختم ہو جائے تو سگریٹ پینے والوں کواس بارے میں تمام بحث میں سب سے آگے ہونا چاہئے تاکہ وہ اپنی ضرورتوں کا خیال رکھ سکیں۔
ما قبل کورونا اور ما بعد، ارشد رضوی
کورونا کے مابعد اثرات میں ایک خوفناک ترین اثر بڑے پیمانے پر دنیا کی آبادی کے ایک بڑے حصے کا خطِ غربت سے نیچے گِرنے کا اندیشہ ہے جس کے نتیجے میں بے روزگاری اور غربت میں غیر معمولی اضافہ ہو گا۔
Pakistan is a country with heavy use of tobacco. With more than 24 million...
Read MoreThe Birth of Harm Reduction Informs the World's Need for Safer Nicotine...
Read MoreAlternative Research Initiative (ARI) works to provide researched-based solutions...
Read More